08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط4
غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر4
ضیاء پوھنچ چکا تھا لڑکے کو کھینچ کر سائیڈ پی کیا۔ صفا کو اپنے قریب کر کے سٹیپ لینے لگا ۔
ساتھ ساتھ بات بھی کر رہا تھا کس نے کہا ڈانس کرنے کو اور شرم نہیں آی کسی مرد کے ساتھ.
کیا لگتا تھا وہ تمہارا بولو۔
ضیاء ساری بھڑاس صفا پی نکال رہا تھا۔ صفا کو دائرے میں گھما کے اپنے پاؤں پر اس کے پاؤں رکھے صفا کی بولتی بند تھی اس ماریہ کا علاج کروں گا یہاں سے فارغ ہو لوں۔
صفا کو اور قریب کر لیا اس کی تو جان نکلی جا رہی تھی۔
کیا کر رہا تھا وہ ایسے نہ۔ اس کی گال سے گال مس کیا اور ایسے نہ۔ اس کے بالوں کے قریب چہرہ لا کر خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا۔
اب تم کسی کے ساتھ مجہے کبھی نظر آی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ وارن کیا۔ صفا تو ایسی تھی کاٹو تو لہو نہیں۔
جی کہنے میں صفا نے دیر نہ لگائی۔ ضیاء سارے ٹائم اس کے چہرے میں کھویا رہا۔ کب ٹائم ختم ہوا پتہ نہیں لگا۔
آخر میں صرف وہ دونوں تھے تب صفا منمانی پلیز۔ بس کر دیں ۔یکدم ضیاء اپنی دنیا میں لوٹا اور ہوش میں بھی پھر رکنے میں دیر نہیں کی۔
فورا اتر کے کہیں گیا۔ کیا ہوا صفا تمہارا چہرہ کیوں اترا ہوا اور رنگ پیلا۔
اب خیال آیا تمہیں ماریہ میرا؟ صفا غصہ میں بولی۔ مجہے لے کر آی اور پھر بھول گئی۔ یہ ہے تمہاری دوستی اور پیار ۔مجھ سے بات مت کرو۔
صفا اس کے پاس سے چلی گئی۔ ضیاء چلتا ہوا ایک سنسان جگہ پی آ کھڑا ہوا۔ وہ پریشان بھی تھا اور نادم بھی۔
مجہے کیا ہو گیا تھا۔ کیوں اس پر حق جتایا ۔میرا تو اس سے کوئی تعلق بھی نہیں ۔مجہے لگتا ہے تمہیں اس سے محبت ہو گئی ہے۔ فورا دیکھتا ہے کہنے والے کی طرف وہ تو خود اسکا عکس تھا۔
مجہے محبت نہیں ہے بس عورت کی عزت کی ہے۔ ضیاء نے صفائی دی۔ میں نہیں مانتا۔
نہیں ہے محبت یہ کہ کے فورا گاڑھی کی طرف آیا اور سیدھا گھر کی طرف نکل گیا۔
صفا مجہے معاف کردو غلطی ہوئی مانتی ہوں میں دوبارہ نہیں ہوگا ایسا مجھ سے۔ ماریہ میں موقع دوں گی تو ہوگا نہ۔
پیدل چال پڑی غصہ میں۔ ماریہ پکارتی رہ گئی پر فضول اتنے میں ایک گاڑھی پاس آ کے رکی۔ اب محترمہ کہاں جا رہی ہیں؟
جو ہوا وہ بھولی نہیں آپ؟جاتے ھوے ضیاء کو صفا دیکھی تنہا پیدل جاتے ھوے تو وہ اسکی طرف آیا۔
جی میں گھر جا رہی ہوں۔
صفا سر جھکا کے بولی۔ تنہا کیوں ماریہ کہاں ہے۔ ضیاء نے پوچھا۔
مجہے اس سے بات نہیں کرنی۔ می چلی جاؤں گی۔ صفا جھنجھلا کے بولی۔ چپ کر کے گاڑھی میں بیٹھیں۔
صفا نے اس کے تیور دیکھے تو چپ کر کے بیٹھ گئی۔ آپ کا تھینکس سب کے لئے۔ ممنونیت سے بولی۔
میرا فرض تھا اوکے تو اب گھر کا راستہ بتا دیں۔ صفا بتاتی گئی گھر آنے پر تھنکس بولی پھر اور اندر چلی گئی۔
اف یہ لڑکی بھی نہ۔ کہ کر ہنس پڑا۔ پھر واپس مڑہا۔اگلے دن صفا یونی نہیں گئی ماں نے پوچھا تو کہا دل نہیں کر رہا جانے کو۔
اصل وجہ ماریہ سے ناراضگی اور ضیاء کا یوں اس کے ساتھ رویہ۔ اسکو شرم آ رہی تھی۔
صبح ضیاء نے ماریہ کی اچھی خاصی کلاس لی۔ میں شرمندہ ہوں صفا بھی ناراض ہے۔
غلطی ہے ساری تمہاری۔ضیاء نے جتلایا ۔ آج وہ آئ ھی نہیں۔
شام کو جاؤں گی صفا کے پاس سوری بولنے۔ اچھا ہے۔ سنو اس لڑکی آسیہ سے بھی اگلوانا ہوگا تمہیں۔ جی پر وہ آسانی سے بولے گی نہیں ماریہ نے شک ظاہر کیا۔
تو کیوں نہ اسکو بھی حوالات کی سیر کرا دیں ضیاء ہنسا ۔پر وہ بھی تو ایک مہرہ ھی ہے۔
دھمکانے کا کام تو کرنا پرے گا تا کہ وہ اور کچھ نہ کرے۔ کرتے ہیں کچھ۔
رپورٹ دینا مجہے۔ اوکے باس ماریہ ہنس کر کلاس میں گئی۔
شام کو صفدر نے ضیاء کو بتایا کے ہوٹل سے انہوں نے ایک شخص کو پکڑا ہے۔ شک اس طرح پڑا کے وہ جب کھانا کھا رہا تھا اس نے نمک مانگا پھر تھورے سے نمک کے اس نے زیادہ پیسے دئے ۔
ہوٹل کے بیرے کو شک ہوا اسنے پولیس کو کال کردی۔ گرفتاری پر اس نے بتایا کے وہ ملائی ہے۔ اردو سیکھ کر آیا تھا جو زیادہ بولی جاتی ہے یہاں۔
ادھر سے ہم نے اسکو اپنی تحویل میں لے لیا۔
ضیاء کس وقت آ رہے ہو تم۔ آگے کا تم پوچھنا سہی طریقہ تمہیں آتا۔
یار مجھ سے زیادہ مار پیٹ نہیں ہوتی۔ صفدر نے کال پے منہ بنایا۔
ضیاء نے ہنس کر کہا۔ اوکے دو گھنٹے تک پھنچوں گا اس کا دھیان رکھنا۔
شام کو ماریہ نے گھر جا کر اسکی امی کی مدد سے صفا کو مانا لیا تھا۔ اب وہ دونوں باتیں کر رہی تھیں صفا ضیاء پے مجہے شک ہے ۔ماریہ سسپنس سے بولی۔
ہاں کیسا شک صفا بولی ۔ ماریہ نے ٹیڑھی آنکھوں سے صفا کے تاسرات دیکھنے۔
مجہے لگتا ہے ضیاء تمہیں پسند کرتا ہے۔ پارٹی پے سارا وقت اسکی نظر تم پی رہی اور اس نے خیال کیا حفاظت تک کی تماری صفا ۔
مجہے تو نہیں لگتا صفا نے منہ بنایا اسکو ضیاء کا ڈانٹنا یاد آیا۔ میرا تو جو اندازہ تھا وہ بتا دیا ماریہ بولی۔
ماریہ ہمارا فیصلہ گھر والوں نے کرنا ہم انکی عزت ہیں۔ چھوڑو یہ باتیں۔
بیٹا چاۓ پی لو نیچے آ کے۔ صفا کی امی کی آواز آی۔ چلو چلتے ہیں۔
ہاہاہا۔ تم لوگوں نے مجہے اتنا کمزور سمجھ لیا کے میں تم لوگوں کو سب بتا دوں گا۔ وہ بندہ بولا۔
تو تم نہیں بتاؤ گے سوچ لو۔ ضیاء نے مسکرا کر کہا۔ سوچنا بھی مت۔
اوکے تو جو میں کرنے جا رہا ہوں نہ اگے کا تم سوچنا اب۔
وزیر چھری لانا ذرا۔
کیا کرو گے تم وہ بولا۔
دیکھ لینا اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ وزیر چھری ضیاء کے ہاتھ میں دیتا ہے ۔ضیاء اس کے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔
آخری دفعہ سب کچھ دیکھ لو اس کے بعد تم کچھ نہ دیکھ پاؤ۔ پھر چھری اس کی آنکھ کی طرف آہستہ لے جاتا ہے خوف اس بندے کے چہرے پر آ جاتا ہے۔
نہیں کہ کر چلایا۔ اوکے پانچ منٹ بعد پھر آتا ہوں ایک موقع اور دیا تمکو۔ ضیاء باہر نکل گیا۔
اب وہ بتا رہا تھا کہ شاجین کے لئے وہ کام کرتے ہیں اغوا قتل ڈاکہ سب کچھ پر کام بڑا ہوتا ہے چہوٹے کام نہیں ہوتے۔
اصل بات بتاؤ اب کیا کرنے کا پلان تھا شاجین کا۔لڑکیوں کو ملایا لے جانا ہے اور ہتھیار بھی۔
کب۔ ضیاء بولا۔
بس ایک ہفتہ تک سب آدمی پھیلے ھوے ہیں کام بن جاۓ گا ہفتہ میں۔
شاجین تک پھنچنے کا ذریعہ کیا ہے۔
آسان ہے کیوں کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔
ماسٹر ہے لڑائی کا۔ اسکا دماغ بھی بہت شاطر ہے۔
ہم تمہیں آزاد کر سکتے ہیں اگر تم ہمارا ساتھ دو تو۔ ضیاء نے اسکے چہرے پر نظر جما کے کہا۔
کیسا ساتھ۔
مال لے جاتے ھوے تم لوگ پکڑے جاؤ گے بس تم اور کچھ بندے جان بچا کے بھاگو گے پھر سب اسکو بتاؤ گے ان بندوں میں ہم بھی ہوں گے جو تمہارے ساتھ جایں گے۔
شاجین ناکامی پر ہمیں مار ڈالے گا۔ وہ ڈر کے بولا ناکامی کی سزا موت ہے۔
اگر کچھ مال ساتھ ہو تو۔
ہاں پھر بچت ہو سکتی ہے۔
اوکے تو پھر مشن سٹارٹ۔ دھوکہ دیا تو انجام یاد رکھنا۔ ضیاء نے ٹھوس چہرے کے ساتھ وارننگ دی۔ مقرر دن جب سامان لے جایا جانے والا تھا۔ ضیاء اور ساتھیوں نے نقاب میں دھاوا بول دیا۔
سارا کچھ قبضہ میں کر لیا اور ضیاء اور کچھ بندے اگلے سفر پر روانہ ہو گئے کچھ سامان کے ساتھ۔
وہی ناٹک کیا اس نے جیسا ضیاء نے بتایا تھا۔
کام بن گیا تھا۔
ضیاء اب ان میں شامل تھا۔ بندوں کو پہچان رہا تھا۔ جگہیں دیکھ رہا تھا اور وہاں موجود سامان کا اندازہ بھی لگا لیا تھا۔
ضیاء خوش تھا کہ اتنا چالاک ہونے کے باوجود بھی شاجین جان نہ پایا تھا ضیاء کو اور ساری پلاننگ کو۔جب موقع ملتا ضیاء صفدر کو ساری معلومات دے دیتا۔
اب اس نے ساری پلاننگ کر لی تھی اور ان معلومات پر صفدر اور باقی ساتھیوں نے پہاڑی راستہ چنا تھا انہوں نے۔
کیوں کہ پانی کے راستہ سے وہ پکڑے جاتے۔ تین دن کے بعد اب وہ پوھنچ چکے تھے ملایا۔
ضیاء نے بولنے والے بہت سے لفظ سیکھ لئے تھے جس سے وہ ان کے نزدیک شک سے مبرا ہو چکا تھا۔ ضیاء کے ساتھیوں کا حملہ پلاننگ کے تحت تھا۔
اس لئے جیت گئے ایک دفع پھر۔
شاجین کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
واپسی کے لئے اب ضیاء اور صفدر نے بحری راستہ چنا۔
شاجین کو پکڑ کر لایا گیا۔ جانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔
اسی دوران شاجین نے آہستہ آہستہ قدم پیچھے کی جانب لینے شروع کر دئے۔
جب وہ آخر پر پوھنچ گیا تو بولا۔
Anda menangkap saya dan melakukan banyak kerosakan.
Tetapi saya tidak akan membiarkan anda menang.
Saya akan membalas dendam atas kehilangan saya.
Bersedia kiri.
(تم لوگوں نے مجہے پکڑ لیا بہت نقصان کیا۔
پر میں تم لوگوں کو جیتنے نہیں دونگا۔
بدلہ لونگا اپنے نقصان کا۔
تیار رہنا۔ بائے ۔)
یہ کہ کر اسنے الٹی چھلانگ لگا دی دریا میں۔
ضیاء بھاگا اسکو ڈھونڈا پر نہیں پتہ لگا اب ضیاء اور سب پریشان تھے کہ وہ ڈوب گیا یا بچ گیا ہوگا۔